نئی دہلی۔ بی ایس پی کی صدر مایاوتی نے کہا ہے کہ مسلمان اس لئے اس بار بی
ایس پی کو ووٹ دیں گے کیونکہ ایس پی کی 'خانہ جنگی' کی وجہ سے اس کے لوگ دو
خیموں میں منقسم ہیں۔ اکھلیش کے لوگ شیو پال کے لوگوں کو ہرائیں گے اور
شیو پال کے لوگ اکھلیش کے لوگوں کو، اس لیے ووٹ خراب ہو جائے گا اور اس کا
فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔ اس سے بی ایس پی کو کتنا فائدہ ہو پائے گا یہ تو
وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ طے ہے کہ تقریبا 19 فیصد ووٹ بینک پر بی ایس پی
اور ایس پی ہی سب سے زیادہ نظر گڑائے ہوئے ہیں۔ مایاوتی کو لگتا ہے کہ 21-22 فیصد دلت اور 19 فیصد مسلم ووٹوں کا بڑا حصہ
ان کو مل جائے تو وہ پانچویں بار وزیر اعلی بن سکتی ہیں۔ دلتوں کا ووٹ
انہیں ہی سب سے زیادہ ملتا رہا ہے، لیکن مسلم ووٹ سب سے زیادہ سماج وادی
پارٹی حاصل کرتی رہی ہے۔ ایسے میں اب دونوں جماعتوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج
اس ووٹ بینک کو اپنے حق میں کرن
جب یوپی میں کانگریس کی طوطی بولتی تھی اس وقت روایتی طور پر مسلم ووٹ
کانگریس کو جاتا تھا، لیکن بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایس پی اور بی ایس
پی نے اس ووٹ بینک میں نقب لگا لی۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ 2012 کے اسمبلی
انتخابات میں مسلم اکثریت والے علاقوں میں سب سے زیادہ 48 فیصد نشستیں سماج
وادی پارٹی نے حاصل کی تھیں۔ جبکہ 2007 میں ایسے علاقوں میں 44 فیصد
نشستیں بی
ایس پی کے کھاتے میں گئی تھیں۔ اس وقت 403 ارکان والی یوپی
اسمبلی میں 64 مسلم ممبران اسمبلی ہیں جن میں سماج وادی پارٹی کے سب سے
زیادہ ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس پڑھانے والے ڈاکٹر محب الحق کہتے
ہیں کہ موجودہ حالات میں یوپی کا مسلمان بی جے پی کو شکست دینے کے لئے
کوئی متبادل چنے گا۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ پالیٹکس، کانپور
کے پروفیسر انل کمار ورما نے بتايا کہ اس وقت تقریبا 65 فیصد مسلمان سماج
وادی پارٹی کے ساتھ ہیں۔ تاہم ایس پی میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے وہ
کشمکش میں ہیں۔
ایس پی کی اندرونی لڑائی کا فائدہ اٹھا کر بی ایس پی مسلمانوں کو اپنی طرف
آنے کی دعوت دے رہی ہے لیکن اس کے لئے یہ کر پانا اتنا آسان نہیں ہے۔ بی
ایس پی کے پرانے لیڈر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی
ایس پی کے ساتھ قریب 18 فیصد مسلم تھے۔ مسلم ووٹروں کے رویے میں تبدیلی آ
رہی ہے۔ اب وہ شناخت والی سیاست سے ہٹ کر اپنی خود مختاری چاہتے ہیں۔
سماج وادی پارٹی میں قومی ایکتا دل کے انضمام کے بعد مسلمانوں میں اچھا
میسیج گیا ہے۔ مسلمانوں کی دوسری پسند بی ایس پی اور تیسری کانگریس ہے۔ بی
جے پی بھی مسلمانوں کو پارٹی سے جوڑنے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ اس نے
پروگریس پنچایت کے ذریعے مسلمانوں سے بات چیت کرنے کی کوشش شروع کی ہے